آسمان

آسمان

سات آسمانوں كے متعلق
   

سات آسمانوں اور سات زمينوں كی كيا حقيقت ہے؟قرآن مجید کی طرف سے چند معلومات آپ کی خدمت میں

 پہلی بات- آسمان سات ہیں اور زمین ایک ہے۔دیکھیے:


    هوَ الَّذِی خَلَقَ لَکم مَّا فِی الأَرْضِ جَمِیعاً ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء فَسَوَّاهنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهوَ بِکلِّ شَیءٍ عَلِیمٌ (البقرة 29)
    وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنا دیا اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے۔


یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں زمین ہمیشہ واحد ہی آیا ہے جبکہ آسمان واحد اور جمع دونوں صورتوں میں آتے ہیں۔ مثلا ذیل کی آیت دیکھیے جو خدا کی قدرت تخلیق کو بیان کرتی ہے، مگر یہاں بھی زمین ایک ہی ہے، حالانکہ موضوع کا تقاضا یہ تھا کہ زیادہ زمینوں کا ذکر کیا جائے اس لیے کہ تخلیق کی قدرت کا بیان ہو رہا ہے ۔لیکن یہاں بھی ایک ہی زمین کا ذکر ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ زمین ایک ہی ہے:


    بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا یقُولُ لَه کن فَیکونُ (البقرة  2- 117)
    وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والاہے۔ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے۔


صرف ایک جگہ کچھ اشارہ سا کہ سکتے ہیں مگر وہ اتنا صریح نہیں ہے کہ ہم اس کی بنیاد پر رائے قائم کر سکیں ۔ یہ سورہ الطلاق کی آیت 12 ہے، اس کا حوالہ آگے آرہا ہے۔

 دوسری بات- زمین بالکل ویسی ہی ہے جیسے آسمان ہیں۔


    اللَّه الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهنَّ یتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَینَهنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّه عَلَى کلِّ شَیءٍ قَدِیرٌ وَأَنَّ اللَّه قَدْ أَحَاطَ بِکلِّ شَیءٍ عِلْمًا (الطلاق - 12)
    اللہ ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ایسی ہی زمین میں سے۔ ان میں (اللہ کے) حکم اُترتے رہتے ہیں تاکہ تم لوگ جان لو کہ اللہ چیز پر قادر ہے۔ اور یہ کہ اللہ اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔


اس سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ آسمان اور زمین ایک ہی طرح کی چیزیں ہیں۔ اس آیت سے لگتا ہے کہ سیاروں کو اللہ تعالی آسمان کہہ رہے ہیں اور زمین کو زمین ۔ کیونکہ زمین اگر اوپر کی کسی چیز سے مماثل ہے تو وہ سیارے ہی ہیں۔ اب اگر ہم دیکھیں تو ہمارے نظام شمسی میں کل سیارے آٹھ ہیں ، زمین کے علاوہ سات ہیں اور آٹھویں ان جیسی زمین ہے۔ اس آیت کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ غالبا اللہ تعالی کی مراد یہ ہے کہ کل سیارے آٹھ ہیں جن میں سے ایک زمین ہے اور سات آسمان ہیں۔

 آسمان کے معنی
آسمان ترجمہ ہے سماء کا-یہ قدیم عربی لفظ ہے جو زمین کے اوپر ی فضا اور اس کے اجسام کے لیے بولا جائے گا۔

جیسے ذیل کی آیت میں دیکھیے کہ کرہ ارضی میں موجود ہوائی کروں (atmospheric layers)کے لیے بولا گیا ہے۔


    أَلَمْ یرَوْاْ إِلَى الطَّیرِ مُسَخَّرَاتٍ فِی جَوِّ السَّمَاء مَا یمْسِکهنَّ إِلاَّ اللّه إِنَّ فِی ذَلِك لَآیاتٍ لِّقَوْمٍ یؤْمِنُونَ  (النحل 16)
    کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمان کی ہوا میں گھرے ہوئے (اُڑتے رہتے) ہیں۔ ان کو اللہ ہی تھامے رکھتا ہے۔ ایمان والوں کے لیے اس میں (بہت سی) نشانیاں ہیں۔


کہیں بادلوں کے لیے اور کہیں اوپر کی خلا کے لیے جہاں ستارے ہیں مثلا-


    إِنَّا زَینَّا السَّمَاء الدُّنْیا بِزِینَة الْکوَاکبِ (الصافات37- 6)
    بےشک ہم ہی نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا۔


صرف اوپر کے معنی میں :


    قَالَ عِیسَى ابْنُ مَرْیمَ اللَّهمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَینَا مَآئِدَة مِّنَ السَّمَاء تَکونُ لَنَا عِیداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیة مِّنك وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ (مائدة5- 114)
    (تب) عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لیے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کے لیے اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے تو بہتر رزق دینے والا ہے۔


بادل کے معنی میں -


    وَهوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء (انعام6: 99)
    اور وہی تو ہے جو آسمان سے مینہ برساتا ہے۔


اوپر کے نیلے آسمان کے معنی میں-


    أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ قَبِيلاً (اسرائيل17: 92)
    یا جیسا تم کہا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے لا گراؤ یا اللہ اور فرشتوں کو (ہمارے) سامنے لاؤ ۔


خدا کی طرف سے کے معنی میں -


    قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاء مَلَكًا رَّسُولاً (بني اسرائيل17: 95)
    کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے (کہ اس میں) چلتے پھرتے (اور) آرام کرتے (یعنی بستے) تو ہم اُن کے پاس فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجتے ۔


زمین کے علاوہ باقی ساری کائنات کے معنی میں-


    وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ  (الأنبياء 16)
    اور ہم نے آسمان اور زمین کو جو اور (مخلوقات) ان دونوں کے درمیان ہے اس کو لہوولعب کے لئے پیدا نہیں کیا۔


اجرام فلکی کے معنی میں:


    أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاء أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ  (الحج 65)
    کیا تم نہیں دیکھتے کہ جتنی چیزیں زمین میں ہیں (سب) اللہ نے تمہارے زیرفرمان کر رکھی ہیں اور کشتیاں (بھی) جو اسی کے حکم سے دریا میں چلتی ہیں۔ اور وہ آسمان کو تھامے رہتا ہے کہ زمین پر (نہ) گڑ پڑے مگر اس کے حکم سے۔ بےشک اللہ لوگوں پر نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے ۔


یہ مثالیں اس لیے دی گئی ہیں تا کہ معلوم ہو کہ قرآن مجید میں سماءٌ کے معنی صرف آسمان کے نہیں ہیں۔

میرا خیال:
ان معلومات کی روشنی میں مجھے لگتا ہے کہ سات آسمانوں سے مراد زمین کے علاوہ باقی تمام سیارے ہیں ۔ سات آسمانو ں اور زمین سے اشارہ ہمارے نظام شمسی کی طرف ہے۔یہ تمام بنیادی طور پر گلوب ہیں۔سب کا ایک مدار ہے ، سب گردش کررہے ہیں ۔ یہی وہ مماثلتیں ہیں جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں۔

  1. زمین


    سورج کے گرد گھومنے والا وہ سیارہ جس پر زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں چوبیس گھنٹے میں اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے اس کے نتیجے میں دن اور رات وجود میں آتے ہیں۔       


    زمین کی تشکیل


    ماہرین طبقات الارض کے مطابق یہ زمین نظام شمسی کے ایک حصے کے طور پر معرض وجود میں آئی۔ زمین کی عمر کا صحیح طور پر اب تک اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔ صرف دو سو سال قبل ماہرین طبقات الارض نے اس سلسلے میں اپنی تحقیقات کا آغاز کیا۔ یہ کیسے وجود مین آئی؟ اس کی اس وقت نوعیت کیا تھی؟ جب یہ تشکیل پائی اور یہ موجودہ حالت میں اپنے قشر ، مرکز اور فرغل کے ساتھ کیسے ارتقاء پذیر ہوئی؟ ان تمام امور پر سائنس دان ابھی تک کسی ایک نقطہ پر بھی متفق نہیں ہو سکے۔

    امکان غالب ہے کہ زمین گیس کے گردشی بادل اور گرد سے معرض وجود میں آئی ہو اور یہ اپنی ابتدائی حالت میں سلیکان کے مرکبات ، لوہے، میگنشیم آکسائیڈ اور تھوڑی مقدار میں قدرتی کیمیائی عناصر کا متجانس آمیزہ تھی یہ کہا جاتا ہے کہ ابتداء میں زمین سرد تھی۔ جونہی اس کی تشکیل ہونا شروع ہوئی یہ گرم ہونا شروع ہو گئ۔ حرارت ان تین ذرائع سے وقوع پذیر ہوئی۔


        ذرات جنہوں نے زمین کی تشکیل کرنا شروع کی پر سکون ہو گئے اور ان کی حرکت کی توانائی حرارتی توانائی میں تبدیل ہو گئی۔

        جونہی زمین کی افزائش شروع ہوئی تو اس کا مرکزی حصہ اضافی مواد کی وجہ سے دب گیا اس دباؤ کی وجہ سے بھی حرارت پیدا ہوئی۔

        زمین میں داخل ہونے والے کچھ عناصر مثلا یورنیم، تھورئنیم اور پوٹاشیم تابکار عناصر تھے اور جب ان میں بگاڑ پیدا ہو گیا تو وہ حرارت چھوڑنے لگے پھر ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ حرارت نے لوہے کو بھی پگھلا دیا جونہی لوہا پگھلا اس نے قطرے تشکیل دیے جو زمین کے مرکزی حصے میں ڈوبنے لگے کیوں کہ یہ اس مواد سے بھاری تھے جو اس کے اردگرد تھا لہذا جونہی وہ ڈوبے ان کی تجاذبی توانائی حرارتی توانائی میں تبدیل ہو گئی جس نے زمین کا درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھا دیا۔ درجہ حرارت بڑھنے سے وہ خطہ بھی بڑا ہو گیا جس میں یہ لوہا پگھلا تھا حتی کہ وہ سیارے کے مرکزی حصے تک بھی پھیل گیا اس وقت تک کئ دوسرے عناصر بھی پگھل چکے تھے ان میں سے جو بھاری تھے وہ زمین کے مرکزی حصے پر گرنے لگے اور ہلکے عناصر اوپر چڑھنے لگے اس طرح اپنے اپنے وزن کے اعتبار سے ان عناصر کی علیحدگی شروع ہو گئی۔


    بھاری عناصر میں لوہا غالب رہا جس نے زمین کے مرکزی حصے میں محلولی مرکز تشکیل دیا ہلکے عناصر جن میں سیلیکون بہت زیادہ مقدار میں تھا زمین کی طرف بلند ہوئے جہاں وہ ٹھنڈے ہو گئے انہوں نے ٹھوس قشر تشکیل دیا بقیہ اصل مواد نے جو مرکز کے مابین تھا فرغل تشکیل دیا۔


     طبقات الارض


    یہ اندرونی اور بیرونی دو توں پر مشتمل ہے اندرونی تہہ 1300 کلومیٹر موٹی اور بیرونی تہہ 2080 کلومیٹر موٹی ہے بیرونی تہہ نے پگھلنا شروع کردیا۔


     فرغل


    زمین کا فرغل زمین کے نصف قطر سے بھی آدھا ہے اس کی موٹائی 2900 کلومیٹر ہے یہ زمین کی بالائی سطح کے نیچے 45 سے 56 کلومیٹر کی گہرائی تک چلا گیا ہے اور 2900 کلومیٹر نیچے جا کر زمین کے بیرونی مرکز سے مل جاتا ہے۔ فرغل سرخ گرم چٹان کا خول ہے اور زمین کے دھاتی اور جزوی پگھلے ہوئے مرکز کو زمین کے قشر کی ٹھنڈی چٹانوں سے علیحدہ کرتا ہے۔


     قشر


    اس کی موٹائی 37 سے 43 میل تک ہے۔ یہ سمندروں اور براعظموں پر مشتمل ہے اسے کرہ حجر بھی کہتے اس کی پہلی تہہ ریت، مٹی، کنکر، معدنی اور نباتاتی عناصر سے بنی ہے جسسے سائل بھی کہتے ہیں جس سے نباتاتی اور زرعی پیداوار حاصل ہوتی ہے اور یہ حصہ فرغل کے پلاسٹک بیس پر ایستادہ ہے۔


    کرہ ارض


    زمین کی بیرونی سطح کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

     کرہ حجر


    زمین کا وہ حصہ جو قشر اور بالائی فرغل کی سب سے بیرونی ٹھوس تہہ پر مشتمل ہے اور یہ حصہ 100 کلومیٹر یا 60 کلومیٹر کی گہرائی تک پھیلا ہوا ہے۔


     کرہ آب


    پانی کی سطح جس میں سمندر، جھیلیں اور دریا شامل ہیں یہ کرہ حجر پر ایستادہ ہیں۔


     کرہ ہوائی


    گیس کی تہہ جو کسی سیارے یا ستارے کے گرد لپٹی ہو۔ کرہ ہوائی 78 فیصد نائٹروجن 21 فیصد آکسیجن اور ایک فیصد آرگون پر مشتمل ہے کاربن ڈائی ایکسائیڈ اور ہائیڈروجن گیس کی بھی تھوڑی سی مقدار اس میں شامل ہے۔ کرہ ہوا کا بیرونی خول 400 کلومیٹر یا 250 میل ہے۔


    کرہ حیات


    اسے زندگی کا کرہ بھی کہا جاتا ہے اور یہ کرہ حجر کرہ آب اور کرہ ہوائی کے اوپر ہے یہ ہماری زمین ہے۔


     زمین کا حجم


        قطبی قطر، 83ء7899 میل

        استوائی قطر، 41ء7926 میل

        قطبی محیط، 55ء24901 میل


     زمین کا رقبہ


    کل رقبہ 148429000 مربع کلو میٹر 57308738 مربع کلومیٹر

    عمر و کثافت


    زمین کی عمر، 6ء4 تا 5 بلین سال

    زمین کی کثافت، 5ء52 ( پانی کی کثافت ایک ہے)


     زمین سے چاند کا فاصلہ


        قریبی فاصلہ 221456 میل

        دوری فاصلہ 252711 میل

        اوسط فاصلہ 238875 میل


     زمین سے سورج کا فاصلہ


        قریبی فاصلہ 4ء91 ملین میل "ایک ملین یعنی دس لاکھ"

        دوری فاصلہ 5ء94 ملین میل

        اوسط فاصلہ 9ء92 ملین میل

        رفتارفرار 7 میل فی سیکنڈ


    زمین کی دو حرکات ہیں


        اپنے محور کے گرد حرکت جسے محوری گردش کہتے ہیں

        زمین کی حرکت سورج کے گرد جسے دوری گردش کہا جاتا ہے


    زمین کی گردش کی مدت 6 گھنٹے 54ء9 سیکنڈ سورج کے گرد ایک سال


     محوری گردش


    زمین کی محور کے گرد گردش کرنے کی مدت ایک دن یا 23 گھنٹے 56 منٹ 09ء4 سیکنڈ

    سورج کے گرد مدار میں زمین کی گردش کی رفتار 5ء8 میل فی سیکنڈ


    دوری گردش


    زمیین کی سورج کے گرد گردش کی مدت 365 دن 6 گھنٹے اور 54ء9 سیکنڈ ہے زمین کا شمالی سرا قطب شمالی اور جنوبی سرا قطب جنوبی کہلاتا ہے۔ وہ فرضی خط جو کرہ زمین کے عین وسط میں قطبین سے برابر فاصلے پر شرقا غربا کھینچا گیا ہے او کرہ زمین کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرتا ہے اس خط سے ہر ایک قطب 90 درجے پر واقع ہے۔


     متفرقات


        زمین کا حجم 260 بلین کیوبک میل

        زمین کا وزن 1018*6586 ٹم

        زمین کا بلند ترین مقام ماؤنٹ ایورسٹ 29028 فٹ

        سطح سمندر سے پستی چیلنجر ڈیپ میریانا گہرائی 36198 فٹ


     دن رات کی تشکیل


    جب زمین اپنے محور کے گرد گھومتی ہے تو اس کے نتیجے میں دن اور رات تشکیل پاتے ہیں۔ جو حصہ سورج کی روشنی پڑنے کی وجہ سے روشن ہوتا ہے وہاں دن ہوتا ہے اور جو حصہ سورج کی دوری پر ہوتا ہے وہاں تاریکی چھا جانے کی وجہ سے رات ہوتی ہے۔


     لمبے اور چھوٹے دن


    لمبا ترین دن جون 21 ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ زمین کے شمالی قطب کا جھکاؤ سورج کی طرف ہوتا ہے جبکہ 22 دسمبر چھوٹا دن ہوتا ہے۔


     آدھی رات کا سورج


    قطب شمالی کے شمال اور قطب جنوبی کے جنوب میں یہ مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب موسم گرما میں آدھی رات کے وقت سورج افق کے اوپر ہوتا ہے۔


     موسموں کی تبدیلی


    جونہی زمین سورج اور اپنے محور کے گرد چکر لگاتی ہے تو اس کا جھکاؤ تقریبا 23 درجے زاویے پر ہوتا ہے اور محوری گردش جھکاؤ پوری دوری گردش کے دوران بھی ایک سا ہی رہتا ہے اور اس طرح سورج کی براہ راست شعاعیں مختلف اوقات میں پڑتی ہیں جو موسموں کی تبدیلی کا باعث بنتی ہیں۔


     

 

 

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment