غزوات
غزوات نبوی
محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم
دور نبوی کے غزوات جن کا تذکرہ مورخین اور سیرت نگار غزوات نبوی کے عنوان سے کرتے ہیں ان کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں دین اسلام کے غلبہ کے بعد سے ہی ہوگیا تھا۔
غزوات کے معنی
غزوہ کی جمع غزوات ہے غزوہ کا معنی ہےقصد کرنا اور غزوات یا مغازی کا لفظ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کا بنفس نفیس کفار کے مقابلے کیلئے لشکر لیکر نکلنے کے ہیں اور یہ قصد کرنا یا نکلنا شہروں کی طرف ہو یا میدانوں کی طرف عام ہے
غزوات کا مقصد
قرآن کریم میں جہاد کا حکم آنے پر اس کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم یہ غزوات دیگر عام جنگوں کی طرح نہیں تھے جن میں صرف قتل وغارت گری مقصود ہوتی ہے، بلکہ ان میں اسلامی احکامات کی انتہائی سختی سے پابندی کی جاتی تھی اور بے جا جانوں کے ضیاع، ضعیفوں، عورتوں، بچوں اور غزوہ میں غیرموجود افراد سے قطعی تعرض نہیں کیاجاتا تھا، اور نہ ہی مویشیوں، درختوں اور کھیتیوں کو تباہ برباد کیا جاتا تھا۔ البتہ غزوہ بنی نضیر میں اس قبیلہ کے جو باغات ختم کردئیے گئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ باغات دشمن کی کمین گاہیں تھیں جہاں یہ سازشیں رچا کرتے تھے، اس لیے انہیں تباہ کرنا پڑا۔
تاریخی پس منظر
جہاد
پہلی مرتبہ جہاد کا حکم نبوت کے مدنی دور میں نازل ہوا۔ اس سے قبل مسلمانوں کو طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں تھی بلکہ صبر کی تلقین اور اس پر جنت کی بشارت دی جاتی تھی۔ جہاد کا حکم بھی بتدریج نازل ہوا۔ آغاز میں صرف اپنے دفاع کے لیے لڑنے کی اجازت دی گئی:
جن سے جنگ کی جائے، اُنہیں جنگ کی اجازت دی گئی، اِس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے، اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دئیے گئے، صرف اِس بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔
قرآن: سورۃ - الحج - 39 - 40
پھر بتدریج حکم نازل ہوا کہ اب اسلام کی شوکت اور غلبہ کے لیے جہاد کریں تاکہ دنیا سے فتنہ ختم ہو اور اللہ کی وحدانیت کو فروغ ملے:
اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ ناپید ہوجائے اور دین کامل اللہ کے لیے ہوجائے۔
قرآن- سورۃ البقر - ۱۹-۳۰
غزوات کی تعداد تقریباً 28 ہے۔ اس سے قبل کچھ سرایا بھی ہوئے تھے۔
غزوہ اور سریہ کا لغوی مفہوم
غزوہ اور سریہ یہ دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں جو درج ذیل مفہوم کے حامل ہیں:
غزوہ: دشمن سے جنگ کے لیے جانا۔
سَرِیَّہ: فوج کی ٹکڑی جس میں پانچ سے تین چار سو تک افراد ہوں۔
مصنفین سیرت کی یہ اصطلاح میں وہ جنگی لشکر جس کے ساتھ حضورصلّی اللہ علیہ وسلّم بھی تشریف لے گئے اس کو غزوہ کہتے ہیں اور وہ لشکروں کی ٹولیاں جن میں حضورصلّی اللہ علیہ وسلّم شامل نہیں ہوئے ان کو سرِیّہ کہتے ہیں۔
شماریات
محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم کے زیر قیادت 28 غزوات ہوئے۔
جن میں سے 9 غزوات میں قتال کی نوبت پیش آئی جبکہ باقی غزوات میں بغیر قتال کے مقصد حاصل ہوگیا۔
7 غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پیشگی اطلاع مل گئی تھی کہ دشمن حملہ کی سازش کررہے ہیں۔
غزوات کا سلسلہ 8 سال تک جاری رہا
(2ہجری تا 9ہجری)۔
جن میں سنہ 2ہجری میں سب سے زیادہ غزوات پیش آئے
(8غزوات)۔
نقشہ غزوات
غزوات کا مکمل نقشہ حسب ذیل ہے:
شمار نام تاریخ مقام شمار نام تاریخ مقام
1 غزوہ ابواء 2 ہجری ودان 15 غزوہ بدرالصغری 4 ہجری بدر
2 غزوہ بواط 2 ہجری بواط 16 غزوہ دومۃ الجندل 5 ہجری دومۃ الجندل
3 غزوہ ذی العشیرہ 2 ہجری العشیرۃ 17 غزوہ بنی المصطلق (المریسیع) 5 ہجری المریسیع
4 غزوہ بدر اولی (غزوہ سفوان) 2 ہجری وادی سفوان 18 غزوہ خندق 5 ہجری مدینہ منورہ
5 غزوۂ بدر الکبری 17 رمضان 2ھ — 13 مارچ 624ء بدر 19 غزوہ بنی قریظہ 5 ہجری اطراف مدینہ منورہ
6 غزوہ بنی سلیم 2 ہجری قرقرۃ الکدر 20 غزوہ بنی لحیان 6 ہجری غران
7 غزوہ بنی قینقاع 2 ہجری مدینہ منورہ 21 غزوہ ذی قرد 6 ہجری ذو قرد
8 غزوہ سویق 2 ہجری قرقرۃ الکدر 22 غزوہ حدیبیہ 6 ہجری حدیبیہ
9 غزوہ ذی امر 3 ہجری ذو امر 23 غزوہ خیبر 7 ہجری خیبر
10 غزوہ بحران 3 ہجری بحران 24 غزوہ عمرۃ القضا 7 ہجری مکہ مکرمہ
11 غزوہ احد 3 ہجری جبل احد 25 غزوہ موتہ 8 ہجری موتہ
12 غزوہ حمراء الاسد 3 ہجری حمراء الاسد 26 فتح مکہ 8 ہجری مکہ مکرمہ
13 غزوہ بنی نضیر 4 ہجری اطراف مدینہ منورہ 27 غزوہ حنین 8 ہجری وادی حنین
14 غزوہ ذات الرقاع 4 ہجری ذات الرقاع 28 غزوہ طائف 8 ہجری طائف
29 غزوہ تبوک 9 ہجری تبوک
No comments:
Post a Comment