
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا
خدیجہ نام ام ہند کنیت طاہرہ لقب سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے
خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ،قصی پر پہنچ کر آپ کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سےمل جاتاہے۔
والدہ کانام فاطمہ بنت زائدہ تھااورلوی بن بن غالب کے دوسرےبیٹے عامر کی اولاد تھیں۔
حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والداپنے قبیلے میں نہایت معززشخص تھےمکہ آکر
اقامت کی عبدالدارابن قصی کے جو ان کے چچا کے بیٹے تھےحلیف بنے اور یہیں
فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی جن کے بطن سے عام الفیل سے 15 سال قبل حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا پیداہوئی
(بحوالہ طبقات ابن سعدج۸ ص ۸،۱۰)
سن شعور کو پہنچیں تواپنے پاکیزہ اخلاق کی بناپرطاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں
(بحوالہ۔اصابہ ج ۸ ص ۶۰)
باپ
نے ان صفات کا لحاظ رکھ کر شادی کے لیے ورقہ بن نوفل کو جو برادرزادہاور
تورات وانجیل کےبہت بڑے عالم تھے منتخب کیا ۔لیکن پھر کسی وجہ سے یہ نسبت
نہیں ہوسکی اور ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے نکاح ہوگیا
(بحوالہ۔استیعاب ج ۲ ص ۳۷۵)
ابو ہالہ کے بعدعتیق بن عابد مخزومی کے عقد نکاح میں آئیں۔
اسی زمانہ میں حرب الفجار(جنگ)چھڑی جس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد لڑائی کے لیے نکلےاور مارے گئے
(بحوالہ۔طبقات ج۸ ص ۹)
یہ عام الفیل سے 20 سال بعد کا واقعہ ہے
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کے عقد نکاح میں
حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہاکی دولت وثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کو اپنا
گرویدہ بنالیا تھااور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں تھالیکن کارکنان
قضاوقدر کی نگاہ انتخاب کسی اورپر پڑ چکی تھی۔آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم
مال تجارت لیکر ملک شام سے واپس آئے توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانےشادی کا
پیغام بھیجا۔ نفیسہ بنت مینہ (یعلی بن امیہ کی ہمشیرہ )اس خدمت پر مامور
ہوئی۔آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے منظور فرمایا
(بحوالہ۔طبقات ج ۱۔ص ۸۴)
اور
شادی کی تاریخ مقررہوگئی ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد محترم اگرچہ
وفات پاچکے تھے تاہم ان کے چچاعمروبن اسد زندہ تھےعرب میں عورتوں کویہ
آزادی حاصل تھی کہ شادی بیاہ کے متعلق خود گفتگوکرسکتی تھیں۔اسی بناپر حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا نے چچا کے ہوتے ہوئےبراہ راست تمام مراتب ومراسم طے
کیے۔
معین تاریخ پر حضرت ابوطالب اور تمام رؤسائے خاندان جن میں حضرت
حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لیکر
آئےحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع
کیا تھا - حضرت ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھاعمروبن اسد کے مشورے سے۵۰۰ سوطلائی
درہم مہرقرار پایااور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حرم نبوت ہوکرام المؤمنین
کے شرف سے ممتاز ہوئیں۔
اس وقت آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم ۲۵ سال کے تھےاورحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر۴۰ سال تھی یہ بعثت سے ۱۵ سال پہلے کا واقعہ ہے
(بحوالہ۔صحیح بخاری ج ۱ص ۲،۳)
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا
۱۵
برس کے بعد جب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم پیغمبر ہوئےاور فرائض نبوت کواداکرناچاہاتوسب سے پہلے حضرت حدیجہ رضی اللہ عنہاکو یہ پیغام سنایاوہ سننے سے پہلے مؤمن تھیں،،سبحان اللہ۔۔کیونکہ ان سے زیادہ آپ صدق دعوی کاکوئی شخص فیصلہ نہ کر سکا
(بحوالہ۔صحیح بخاری ج۱ باب بدء
الوحی)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہت سی اولاد ہوئی ابوہالہ
سے جوان کے پہلے شوہر تھےدوبچے پیداہوئےجن کے نام ہالہ اور ہند تھے ۔ دوسرے
شوہریعنی عتیق سے ایک لڑکی پیداہوئی آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم سے چھ
اولادیں ہوئیں دوصاحبزادےجو بچپن میں انتقال کرگئےاور چار صاحبزادیاں سب کے
نام درج ذیل ہیں
(۱)حضرت قاسم رضی اللہ ۔یہ آنحضرت کے سب سے بڑے بیٹے تھےان ہی کے نام پرآپ کی کنیت ابو القاسم ہے
وہ صغر سنی میں ہی انتقال کرگئے جب بمشکل چلنا شروع ہوئے تھے
(۲)حضرت زینب رضی اللہ عنہا یہ آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں
(۳)حضرت عبداللہ
رضی اللہ عنہا
انھوں نے نہایت کم عمر پائی ۔ یہ چونکہ زمانہ نبوت میں پیداہوئے تھےاس لیے طیب اورطاہرکے لقب سے مشہورہوئے
(۴)حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
(۵)حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا
(۶)حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا
(بحوالہ۔طبقات ابن سعد ج۸ص۱۱)
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد۲۵ برس تک زندہ رہیں
اور۱۱
رمضان ۱۰ نبوی اور ہجرت سے تین سال قبل۶۴ سال ۶ ماہ کی عمر میں اس فانی
دنیا سے رخصت ہوکرعقبی کی طرف رخت سفر باندھ کر مالک حقیقی سے جاملیں
(بحوالہ۔بخاری ج۱ص۵۵۱)
چونکہ نماز جنازہ اس وقت تک تک مشروع نہیں ہوئی تھی اس لیےان کی لاش اسی طرح دفن کردی گئی۔
آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کوداعی اجل کے سپرد کردیا
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی قبرجحون میں ہے اور مرجع خلائق ہے
{بحوالہ۔طبقات ابن سعد ج ۸ ص ۱۱}
