Wednesday 28 January 2015

ازواج مطہرات





حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا



خدیجہ نام ام ہند کنیت طاہرہ لقب سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے
خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ،قصی پر پہنچ کر آپ کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سےمل جاتاہے۔
والدہ کانام فاطمہ بنت زائدہ تھااورلوی بن بن غالب کے دوسرےبیٹے عامر کی اولاد تھیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والداپنے قبیلے میں نہایت معززشخص تھےمکہ آکر اقامت کی عبدالدارابن قصی کے جو ان کے چچا کے بیٹے تھےحلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی جن کے بطن سے عام الفیل سے 15 سال قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پیداہوئی

(بحوالہ طبقات ابن سعدج۸ ص ۸،۱۰)


سن شعور کو پہنچیں تواپنے پاکیزہ اخلاق کی بناپرطاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں

(بحوالہ۔اصابہ ج ۸ ص ۶۰)



باپ نے ان صفات کا لحاظ رکھ کر شادی کے لیے ورقہ بن نوفل کو جو برادرزادہاور تورات وانجیل کےبہت بڑے عالم تھے منتخب کیا ۔لیکن پھر کسی وجہ سے یہ نسبت نہیں ہوسکی اور ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے نکاح ہوگیا


(بحوالہ۔استیعاب ج ۲ ص ۳۷۵)


ابو ہالہ کے بعدعتیق بن عابد مخزومی کے عقد نکاح میں آئیں۔
اسی زمانہ میں حرب الفجار(جنگ)چھڑی جس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد لڑائی کے لیے نکلےاور مارے گئے


(بحوالہ۔طبقات ج۸ ص ۹)

 یہ عام الفیل سے 20 سال بعد کا واقعہ ہے

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کے عقد نکاح میں
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی دولت وثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کو اپنا گرویدہ بنالیا تھااور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں تھالیکن کارکنان قضاوقدر کی نگاہ انتخاب کسی اورپر پڑ چکی تھی۔آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم مال تجارت لیکر ملک شام سے واپس آئے توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانےشادی کا پیغام بھیجا۔ نفیسہ بنت مینہ (یعلی بن امیہ کی ہمشیرہ )اس خدمت پر مامور ہوئی۔آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے منظور فرمایا 

(بحوالہ۔طبقات ج ۱۔ص ۸۴)


اور شادی کی تاریخ مقررہوگئی ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد محترم اگرچہ وفات پاچکے تھے تاہم ان کے چچاعمروبن اسد زندہ تھےعرب میں عورتوں کویہ آزادی حاصل تھی کہ شادی بیاہ کے متعلق خود گفتگوکرسکتی تھیں۔اسی بناپر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے چچا کے ہوتے ہوئےبراہ راست تمام مراتب ومراسم طے کیے۔
معین تاریخ پر حضرت  ابوطالب اور تمام رؤسائے خاندان جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لیکر آئےحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع کیا تھا - حضرت  ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھاعمروبن اسد کے مشورے سے۵۰۰ سوطلائی درہم مہرقرار پایااور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حرم نبوت ہوکرام المؤمنین کے شرف سے ممتاز ہوئیں۔
اس وقت آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم  ۲۵ سال کے تھےاورحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر۴۰ سال تھی یہ بعثت سے ۱۵ سال پہلے کا واقعہ ہے
(بحوالہ۔صحیح بخاری ج ۱ص ۲،۳)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا

 

۱۵

      برس کے بعد جب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم پیغمبر ہوئےاور فرائض نبوت کواداکرناچاہاتوسب سے پہلے حضرت حدیجہ رضی اللہ عنہاکو یہ پیغام سنایاوہ سننے سے پہلے مؤمن تھیں،،سبحان اللہ۔۔کیونکہ ان سے زیادہ آپ صدق دعوی کاکوئی شخص فیصلہ نہ کر سکا

(بحوالہ۔صحیح بخاری ج۱ باب بدء الوحی)
Rendered Image
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہت سی اولاد ہوئی ابوہالہ سے جوان کے پہلے شوہر تھےدوبچے پیداہوئےجن کے نام ہالہ اور ہند تھے ۔ دوسرے شوہریعنی عتیق سے ایک لڑکی پیداہوئی آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم سے چھ اولادیں ہوئیں دوصاحبزادےجو بچپن میں انتقال کرگئےاور چار صاحبزادیاں سب کے نام درج ذیل ہیں
(۱)حضرت قاسم رضی اللہ ۔یہ آنحضرت  کے سب سے بڑے بیٹے تھےان ہی کے نام پرآپ کی کنیت ابو القاسم ہے
وہ صغر سنی میں ہی انتقال کرگئے جب بمشکل چلنا شروع ہوئے تھے
(۲)حضرت زینب رضی اللہ عنہا یہ آپ  کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں
(۳)حضرت عبداللہ

رضی اللہ عنہا

انھوں نے نہایت کم عمر پائی ۔ یہ چونکہ زمانہ نبوت میں پیداہوئے تھےاس لیے طیب اورطاہرکے لقب سے مشہورہوئے
(۴)حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
(۵)حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا
(۶)حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا
(بحوالہ۔طبقات ابن سعد ج۸ص۱۱)

 

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد۲۵ برس تک زندہ رہیں
اور۱۱ رمضان ۱۰ نبوی اور ہجرت سے تین سال قبل۶۴ سال ۶ ماہ کی عمر میں اس فانی دنیا سے رخصت ہوکرعقبی کی طرف رخت سفر باندھ کر مالک حقیقی سے جاملیں
(بحوالہ۔بخاری ج۱ص۵۵۱)
چونکہ نماز جنازہ اس وقت تک تک مشروع نہیں ہوئی تھی اس لیےان کی لاش اسی طرح دفن کردی گئی۔

آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کوداعی اجل کے سپرد کردیا
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی قبرجحون میں ہے اور مرجع خلائق ہے
{بحوالہ۔طبقات ابن سعد ج ۸ ص ۱۱}

   
 

                                                             

     حضرت عائشہ رضی عنہ تعالٰی کے حالاتِ زندگی




رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی سب سے پہلی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ بنت خویلد تھیں۔ ہجرت سے تین برس پہلے65 برس کی عمر میں انھوں نے وفات پائی ، اس وقت آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کی عمر شریف پچاس برس کی تھی ۔ایسی رفیق و غمگسار بیوی کی وفات کے بعد آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم بہت غمگین رہا کرتے تھے  ۔ جاں نثاروں کو اس کی بڑی فکر ہوئی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون ایک مشہور صحابی ہیں انکی بیوی خولہ رضی اللہ عنہ بنت حکیم آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے پاس آئیں اور عرض کی یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم آپ دوسرا نکاح کرلیں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کس سے؟ خولہ نے کہا بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی لڑکیاں موجود ہیں جس کو آپ پسند فرمائیں ۔ فرمایا وہ کون ہیں؟ خولہ نے کہا بیوہ تو سودہ بنت زمعہ ہیں اور کنواری ابو بکررضی اللہ عنہ کی لڑکی عائشہ رضی اللہ عنہ۔ارشاد ہوا بہتر ہے تم ان کی نسبت گفتگو کرو۔حضرت خولہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی مرضی پاکر پہلے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کے گھر آئیں اور ان سے تذکرہ کیا۔جاہلیت کا دستور یہ تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں ، عرب اپنے منھ بولے بھائیوں کی اولاد سے بھی شادی نہیں کرتے تھے ۔اس بناء پر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا ، خولہ! عائشہ تو آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کی بھتیجی ہے، آ پ صلّی اللہ علیہ وسلّم سے اس کا نکاح کیونکر ہو سکتا ہے۔ حضرت خولہ رضی اللہ عنہ نے آکر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم سے اس سلسلے میں پوچھا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ابو بکررضی اللہ عنہ میرے دینی بھائی ہیں اور اس قسم کے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے قبول کر لیا ۔



حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کم سن بچّی تھی۔ کبھی کبھی بچپن کے تقاضے سے ماں کی مرضی کے خلاف کوئی بات کر بیٹھتی تھیں تو ماں سزاد یتی تھیں۔آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم اس حال میں دیکھتے تو رنج ہوتا۔ اس بنا پرانکی ماں حضرت امّ رومان رضی اللہ عنہ سے تاکید فرما دی تھی کہ ذرا میری خاطر ان کو ستانا نہیں۔ ایک بار آپ حضرت ابوبکرضی اللہ عنہکے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت عائشہ کواڑ سے لگ کر رو رہی ہیں ۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت ام رومان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نے میری بات کا لحاظ نہیں کیا۔ انھوں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ باپ سے میری بات جاکر لگاآتی ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا جو کچھ بھی کرے لیکن اس کو ستاؤ نہیں۔



حدیثوں میں آیاہے کہ نکاح سے پہلے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے سامنے کوئی چیز پیش کر رہا ہے۔ پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ یہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی بیوی ہیں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے کھول کر دیکھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہتھیں۔حضرت عائشہ کا جب نکاح ہو ا تو وہ اس وقت6 برس کی تھیں۔یہ نکاح مئی 620 ء میں ہوا۔ اس کم سنی کی شادی کا اصل مقصد نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی تھی ویسے بھی عرب کی گرم آب وہوا میں لڑکیوں کی جسمانی ترقی بہت تیز ہوتی ہے اور پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز لوگوں کی ذہنی اور دماغی ترقی بہت تیز ہوتی ہے اسی طرح قد وقامت کی ترقی بھی بہت تیز ہوتی ہے۔ بہر حال اس کم سنی میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کا حضرت عائشہ سے نکاح کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ لڑکپن ہی سے ان میں غیر معمولی عقل وفہم اور سمجھ بوجھ کے آثار نمایاں تھے۔



حضرت عطیہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہکے نکاح کا واقعہ اس سادگی سے بیان کرتی ہیں کہ ’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ ان کی ماں آئیں اور ان کو لے گئیں۔ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے آکر نکاح پڑھا دیا۔‘‘



مسلمان عورت کی شادی صرف اسی قدر اہتمام چاہتی ہے۔ لیکن آج ایک مسلمان لڑکی کی شادی فضول خرچی اور مشرکانہ رسم ورواج کا مجموعہ ہے۔ لیکن کیا خود سرور عالم صلّی اللہ علیہ وسلّم کی یہ مقدس تقریب اس کی عملی تکذیب نہیں ؟ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب میرا نکاح ہوا تو مجھ کو خبر تک نہ ہوئی کہ میرا نکاح ہو گیا۔ جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی تب میں سمجھی کہ میرا نکاح ہوگیا۔ اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا مہر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے پانچ سو درہم مقرر فرمایا تھا جو 131 تولہ اور تین ماشہ چاندی کے برابر ہے۔ بہر حال مہر کی ا س مقدار کا مقابلہ آج کل کے زر مہرکی تعداد سے کرو جو ہمارے ملک میں جاری ہے۔ آج مہر کی کمی خاندان کی ذلّت سمجھی جاتی ہے لیکن کیا اسلام کا کوئی خاندان خانوادۂ صدیق رضی اللہ عنہ سے شریف تر ہے اور کوئی مسلمان لڑکی صدیقۂ کبرئ رضی اللہ عنہ سے زیادہ بلند پایہ ہے؟



حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نکاح کے بعد تقریباً تین برس تک میکہ ہی میں رہیں۔ دو برس تین مہینے مکہ میں اور سات مہینے ہجرت کے بعد مدینہ میں ۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم روزانہ صبح یا شام کو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے گھر بلا ناغہ آیا کرتے تھے ۔ایک دن خلاف معمول چہرۂ مبارک چادر سے لپیٹے دوپہر کو تشریف لائے ۔ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کے پاس حضرت عائشہ اور حضرت اسماءرضی اللہ عنہ دونوں صاحبزادیاں بیٹھیں تھیں ۔ آپ نے پکارکر آواز دی کہ ابو بکر ذرا لوگوں کو ہٹا دو میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ عرض کی کہ یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم یہاںکوئی غیر نہیں ، آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم ہی کے گھر والے ہیں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم تشریف لائے اور ہجرت کا خیال ظاہر فرمایا۔ حضرت عائشہ اور حضرت اسماءرضی اللہ عنہ نے مل جل کر سامان سفر درست کیا ۔دونوں صاحبوں نے مدینہ کی راہ لی اور بال بچوں کو یہیں دشمنوں کے بیچ چھوڑ گئے جس دن یہ مختصر قافلہ دشمنوں کی گھاٹیوں سے بچتا ہوا مدینہ پہنچا، نبوّت کا چودہواں سال اور ربیع الاوّل کی بارہویں تاریخ تھی۔

مدینہ میں ذرا اطمینان ہوا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے بیوی بچّوں کے لانے کے لئے حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ اور اپنے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیجا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا آدمی بھیج دیا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن ابی بکر رضی اللہ عنہ اپنی ماں اور دونوں بہنوں کو لیکر مکہ سے روانہ ہوئے ۔اتفاق سے جس اونٹ پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سوار تھیں وہ بھاگ نکلا اور اس زور سے دوڑا کہ ہر منٹ پر یہ ڈر تھا کہ اب پالان گرا اور اب گرا۔ عورتوں کا جیسا قاعدہ ہے ماں کو اپنی پرواہ تو نہ تھی لیکن بیٹی کے لئے زارو قطار رونے لگیں۔آخر میلوں پر جاکر جب اونٹ پکڑا گیا تو ان کو تشفی ہوئی ۔یہ مختصر قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم اس وقت مسجد نبوی اور اس کے آس پاس مکانات بنوارہے تھے ۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کی دونوں صاحبزادیاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ اور آپ کی بیوی حضرت سودہ رضی اللہ عنہ بنت زمعہ اسی نئے گھر میں اتریں ۔




حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اپنے عزیزوں کے ساتھ بنو حارث بن خزرج کے محلّہ میں اتریں او ر سات آٹھ مہینے تک یہیں اپنی ماں کے ساتھ رہیں۔ اکثر مہاجرین کو مدینہ کی آب وہوا راس نہیں آئی اور بہت سارے لوگ بیمار پڑگئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سخت بخار میں مبتلا ہو گئے کم سن بیٹی اس وقت اپنے بزرگ باپ کی تیمار داری میں مصروف تھی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے آکر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم سے کیفیت عرض کی ۔ آپ  نے دعا فرمائی، اس کے بعد وہ خود بیمار پڑیں اور اب باپ کی غمخواری کا موقع آیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹی کے پاس جاتے او ر حسرت سے منھ پر منھ رکھ دیتے ۔یہ اس شدّت کی بیماری تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے سر کے تمام بال گر گئے۔ صحت ہوئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آکر عرض کی یا رسول اللہ اب آپ اپنی بیوی کو اپنے گھر کیوں نہیں بلوالیتے؟ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اس وقت میرے پاس مہر ادا کرنے کے لئے روپے نہیں ہے۔ گذارش کی میری دولت قبول ہو۔ چنانچہ رسو ل اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے حضر ت ابو بکررضی اللہ عنہ سے قرض لے کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھجوادئیے۔ اس واقعہ سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئیے جو مہر کو دنیا کا وہ قرض سمجھتے ہیں جس کی ادائیگی ضروری نہیں ۔ مہر عورت کا حق ہے اور اس کو ملنا چاہئے۔


مدینہ گویا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی سسرال تھی۔ انصار کی عورتیں دلہن کو لینے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر آئیں۔ حضرت امّ رومان رضی اللہ عنہ نے بیٹی کو آواز دی ، وہ اس وقت سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں ۔ آواز سنتے ہی ماں کے پاس ہانپتی کانپتی دوڑی آئیں۔ ماں بیٹی کا ہاتھ پکڑے دروازہ تک لائی، وہاں منھ دھلا کر بال سنوار دیئے ، پھر ان کو اس کمرے میں لے گئیں جہاں انصار کی عورتیں دلہن کے انتظار میں بیٹھیں تھیں ۔ دلہن جب اندر داخل ہوئی تو مہمانوں نے علی الخیر والبرکۃ و علیٰ خیر طائرٍ یعنی’’ تمہار ا آنا بخیر وبابرکت اور فال نیک ہو‘‘ کہہ کر استقبال کیااور دلہن کو سنوارا۔ تھوڑی دیر کے بعد خود آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم بھی تشریف لائے۔ اس وقت آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی ضیافت لئے دودھ کے ایک پیالہ کے سواکچھ نہ تھا۔ حضرت اسمائ رضی اللہ عنہ بنت یزید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی ایک سہیلی بیان کرتی ہیں کہ میں اس وقت موجود تھی کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے پیالہ سے تھوڑا سادودھ پی کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھایا، وہ شرمانے لگیں ۔ میں نے کہا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کا عطیہ واپس نہ کرو۔انھوں نے شرماتے شرماتے لے لیا اور ذرا سا پی کر رکھ دیا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اپنی سہیلیوں کو دو۔ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ اس وقت ہم کو خواہش نہیں۔ فرمایا جھوٹ نہ بولو، آدمی کا ایک ایک جھوٹ لکھا جاتا ہے۔یہ رخصتی شوال ۱ھ مطابق ۶۲۳ ء میں ہوئی جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نو برس کی تھیں۔ ان بیانات سے اتنا ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا نکاح ، مہر ، رخصتی غرض ہر رسم کس سادگی سے ادا کی گئی تھی، جس میں تکلّف ،دکھاوا اور فضول خرچی کا نام تک نہیں۔ وَ فِی ذَالِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الَمُتَنَافِسُونْ( اور یہ وہ چیز ہے جس میں سبقت کرنے والے کو سبقت 

کرنا چاہئے)۔

( المطففین۔۲۶)


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے نکاح کی تقریب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے عرب کی بہت سے بیہودہ اور بری رسموں کی بندشیں ٹوٹیں جیسے منہ بولے بھائی کی لڑکی سے شادی نہ کرنا، شوال میں شادی نہ کرنا وغیرہ۔